یوں تو ملنے کو اک زمانہ ملا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں تو ملنے کو اک زمانہ ملا
by صفی اورنگ آبادی

یوں تو ملنے کو اک زمانہ ملا
نہ ملا ہاں وہ بے وفا نہ ملا

آشنائی میں کچھ مزا نہ ملا
آشنا درد آشنا نہ ملا

جب ملے وہ کھچے تنے ہی ملے
لطف ملنے کا اک ذرا نہ ملا

ہم نوا سب خزاں کے آتے ہی
ایسے پتہ ہوئے پتا نہ ملا

کھو کے دل کو ہم اس قدر خوش ہیں
جیسے قارون کا خزانہ ملا

شاد کیا ہوں حصول جنت پر
کہ رپئے میں سے ایک آنا ملا

عاشقی کیا ہے سچ جو پوچھو تو
ہم کو مرنے کا اک بہانہ ملا

زندگانی تھی یا پریشانی
سب کیا اور کچھ مزا نہ ملا

روئیے اس کی بد نصیبی پر
ڈھونڈھنے پر جسے خدا نہ ملا

مجھ سے ملنے میں کیا برائی ہے
آپ کے دل کا مدعا نہ ملا

مل گیا دل جو ہم سے ملنا تھا
آنکھ اب ہم سے تو ملا نہ ملا

کھچ کے ملنا بھی کوئی ملنا ہے
ایک ہے وہ جو یوں ملا نہ ملا

پھر سمائی صفیؔ سے ملنے کی
کیوں تمہیں کوئی دوسرا نہ ملا

قدر کرتا ہوں اپنی آپ صفیؔ
واہ مجھ کو بھی کیا زمانہ ملا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse