یوں تو حسین اکثر ہوتے ہیں شان والے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں تو حسین اکثر ہوتے ہیں شان والے
by حفیظ جونپوری

یوں تو حسین اکثر ہوتے ہیں شان والے
لیکن کچھ اور ہے تو او آن بان والے

ناقوس دیر پھونکوں کعبے میں یا اذان دوں
تجھ کو کہاں پکاروں او لا مکان والے

منبر پہ بیٹھ کر تو اتنا بہک نہ واعظ
کیسی یہ نیچی باتیں اونچی دکان والے

یہ حسن یہ جوانی مہماں ہے چند روزہ
اس پر نہ کر یہ غرہ او آن بان والے

کعبے کو شیخ جائے بت خانے کو برہمن
یونہی ڈٹے رہیں گے اس آستان والے

ابرو پہ ڈال کر بل ترچھی نظر نہ کر تو
یہ تیر کج پڑے گا بانکی کمان والے

غیروں پہ تو نظر ہے میری بھی کچھ خبر ہے
میں بھی مٹا ہوا ہوں او آن بان والے

تلوار کھینچ کر کیا بازو کو دیکھتا ہے
دو ہاتھ بس لگا دے اب امتحان والے

قائل ترا جہاں ہے ہاں فرق درمیاں ہے
کچھ ہیں یقین والے کچھ ہیں گمان والے

فرہاد قیس دونوں دے بیٹھے جان آخر
مرتے ہیں بات ہی پر جتنے ہیں آن والے

وہ کس لیے بلائیں جائیں حفیظؔ ہم کیوں
وہ بھی ہیں شان والے ہم بھی ہیں آن والے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse