یوں بھی دیکھا نہ کبھی درد کا درماں ہونا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں بھی دیکھا نہ کبھی درد کا درماں ہونا
by بیخود موہانی

یوں بھی دیکھا نہ کبھی درد کا درماں ہونا
ہائے وہ نشتر مژگاں کا رگ جاں ہونا

وہ تمناؤں کا رہ رہ کے پریشاں ہونا
وہ تری یاد کا دل میں ترے مہماں ہونا

پردے پردے میں ترے وصل کا ساماں ہونا
درد پنہاں کا ترا غمزۂ پنہاں ہونا

محشر ناز ہیں ذرات فضائے کونین
اللہ اللہ کسی کافر کا خراماں ہونا

ہر گھڑی اک نئے عالم کی خبر دیتا ہے
مرا ہنسنا مرا رونا مرا حیراں ہونا

جوش آبادیٔ دنیا سے محبت یعنی
دل حسرت زدہ کا محشر حرماں ہونا

آہ میں ہوں وہ سیہ بخت کہ تقدیر میں تھا
برق سے میرے نشیمن کا چراغاں ہونا

خیر اپنی نہیں تجھ کو یہ کہے دیتا ہے
اپنی ہر ایک ادا پر ترا حیراں ہونا

جلوۂ بزم ازل جلوۂ طور محشر
ہے مرے شوق کے اجزا کا پریشاں ہونا

دیکھیے ناز تغافل کو دکھائے کیا رنگ
اشک حسرت کا سر دامن مژگاں ہونا

وادیٔ معرفت و شوق کے اللہ رے نصیب
جس کی قسمت میں تھا بیخودؔ کا بیاباں ہونا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse