یوں بدلتی ہے کہیں برق و شرر کی صورت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں بدلتی ہے کہیں برق و شرر کی صورت
by اختر انصاری اکبرآبادی

یوں بدلتی ہے کہیں برق و شرر کی صورت
قابل دید ہوئی ہے گل تر کی صورت

زلف کی آڑ میں تھی جان نظر کی صورت
رات گزری تو نظر آئی سحر کی صورت

ان کے لب پر ہے تبسم مری آنکھوں میں سرور
کیا دکھائی ہے دعاؤں نے اثر کی صورت

قافلے والو نئے قافلہ سالار آئے
اب بدل جائے گی انداز سفر کی صورت

کیا کرشمہ ہے مرے جذبۂ آزادی کا
تھی جو دیوار کبھی اب ہے وہ در کی صورت

اب کوئی حوصلہ افزائے ہنر ہے اخترؔ
اب نظر آئے گی ارباب ہنر کی صورت

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse