یوں اکیلا دشت غربت میں دل ناکام تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں اکیلا دشت غربت میں دل ناکام تھا
by ثاقب لکھنوی

یوں اکیلا دشت غربت میں دل ناکام تھا
پیچھے پیچھے موت تھی آگے خدا کا نام تھا

بنتے ہی گھر ابتدا میں رو کش انجام تھا
تنکے چن کر جب نظر کی آشیاں اک دام تھا

بے محل دل کے بجھانے سے انہیں کیا مل گیا
جس کو شمع صبح سمجھے وہ چراغ شام تھا

حال منعم خود غرض کیا جانیں مے خانہ میں کل
رند تھے بے فکر گردش میں دماغ جام تھا

بس یہی فقرہ کہ شام ہجر نے مارا مجھے
کوئی کہہ آتا تو کتنا مختصر پیغام تھا

سیکڑوں بار ایک آہ سرد سے تھرا چکا
کس قدر نزدیک دل سے آسماں کا بام تھا

نامور پھر کون ہوگا کارزار دہر میں
جب یہاں دل سا علم بردار غم گمنام تھا

مونس وحدت کو کھو بیٹھا بڑی مشکل یہ ہے
کاٹنا اک شام فرقت کا ذرا سا کام تھا

سو جگہ سے چھن رہا تھا جب تو ڈرتا کس لئے
کھا گیا دھوکا کہ میرے دل کی صورت دام تھا

سر چڑھایا میں نے چن چن کر خس و خاشاک کو
باغ کے تنکے تھے وہ جن کا نشیمن نام تھا

ذبح میں اک بھیڑ سی دیکھی تھی لیکن کیا خبر
گرد میری حسرتیں تھیں یا ہجوم عام تھا

میرے نالے تھے شب فرقت میں کتنے بر محل
ان کے کانوں میں مگر اک شور بے ہنگام تھا

کیا زمانے کا گلا ثاقبؔ کسی کا کیا قصور
یہ دل غم دوست خود ہی دشمن آرام تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse