یونہی بیٹھے رہو بس درد دل سے بے خبر ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یونہی بیٹھے رہو بس درد دل سے بے خبر ہو کر
by مجاز لکھنوی

یونہی بیٹھے رہو بس درد دل سے بے خبر ہو کر
بنو کیوں چارہ گر تم کیا کروگے چارہ گر ہو کر

دکھا دے ایک دن اے حسن رنگیں جلوہ گر ہو کر
وہ نظارہ جو ان آنکھوں میں رہ جائے نظر ہو کر

دل سوز آشنا کے جلوے تھے جو منتشر ہو کر
فضائے دہر میں چمکا کئے برق و شرر ہو کر

وہی جلوے جو اک دن دامن دل سے گریزاں تھے
نظر میں رہ گئے گل ہائے دامان نظر ہو کر

فلک کی سمت کس حسرت سے تکتے ہیں معاذ اللہ
یہ نالے نارسا ہو کر یہ آہیں بے اثر ہو کر

یہ کس کے حسن کے رنگین جلوے چھائے جاتے ہیں
شفق کی سرخیاں بن کر تجلی کی سحر ہو کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse