یقین وعدہ نہیں تاب انتظار نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یقین وعدہ نہیں تاب انتظار نہیں
by اختر شیرانی

یقین وعدہ نہیں تاب انتظار نہیں
کسی طرح بھی دل زار کو قرار نہیں

شبوں کو خواب نہیں خواب کو قرار نہیں
کہ زیب دوش وہ گیسوئے مشکبار نہیں

کلی کلی میں سمائی ہے نکہت سلمیٰ
شمیم حور ہے یہ بوئے نو بہار نہیں

کہاں کہاں نہ ہوئے ماہ رو جدا مجھ سے
کہاں کہاں مری امید کا مزار نہیں

غموں کی فصل ہمیشہ رہی تر و تازہ
یہ وہ خزاں ہے کہ شرمندۂ بہار نہیں

بہار آئی ہے ایسے میں تم بھی آ جاؤ
کہ زندگی کا برنگ گل اعتبار نہیں

کسی کی زلف پریشاں کا سایۂ رقصاں ہے
فضا میں بال فشاں ابر نو بہار نہیں

ستارہ وار وہ پہلو میں آ گئے شب کو
سحر سے کہہ دو کہ محفل میں آج بار نہیں

گل فسردہ بھی اک طرفہ حسن رکھتا ہے
خزاں یہ ہے تو مجھے حسرت بہار نہیں

ہر ایک جام پہ یہ نغمۂ حزیں ساقی
کہ اس جوانی فانی کا اعتبار نہیں

خدا نے بخش دیئے میرے دل کو غم اتنے
کہ اب میں اپنے گناہوں پہ شرمسار نہیں

چمن کی چاندنی راتیں ہیں کس قدر ویراں
کہ اس بہار میں وہ ماہ نو بہار نہیں

شریک سوز ہیں پروانے شمع کے اخترؔ
ہمارے دل کا مگر کوئی غم گسار نہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse