یعنی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یعنی
by میراجی

میں سوچتا ہوں اک نظم لکھوں
لیکن اس میں کیا بات کہوں
اک بات میں بھی سو باتیں ہیں
کہیں جیتیں ہیں کہیں ماتیں ہیں
دل کہتا ہے میں سنتا ہوں
من مانے پھول یوں چنتا ہوں
جب مات ہو مجھ کو چپ نہ رہوں
اور جیت جو ہو درانہ کہوں
پل کے پل میں اک نظم لکھوں
لیکن اس میں کیا بات کہوں
جب یوں الجھن بڑھ جاتی ہے
تب دھیان کی دیوی آتی ہے
اکثر تو وہ چپ ہی رہتی ہے
کہتی ہے تو اتنا کہتی ہے
کیوں سوچتے ہو اک نظم لکھو
کیوں اپنے دل کی بات کہو
بہتر تو یہی ہے چپ ہی رہو

لیکن پھر سوچ یہ آتی ہے
جب ندی بہتی جاتی ہے
اور اپنی اننت کہانی میں
یوں بے دھیانی میں روانی میں
مانا ہر موڑ پہ مڑتی ہے
پر جی کی کہہ کے گزرتی ہے
سر پر آئی سہہ جاتی ہے
اور منہ آئی کہہ جاتی ہے
دھرتی کے سینے پہ چڑھتی ہے
اور آگے ہی آگے بڑھتی ہے
یوں میں بھی دل کی بات کہوں
جی میں آئے تو نظم لکھوں
چاہے اک بات میں سو باتیں
جیتیں لے آئیں یا ماتیں
چاہے کوئی بات بنے نہ بنے
چاہے سکھ ہوں یا دکھ اپنے
چاہے کوئی مجھ سے آ کے کہے
کیوں بول اٹھے کیوں چپ نہ رہے

چاہے میں کہہ کر چپ ہی رہوں
میں سوچتا ہوں اک نظم لکھوں
لیکن اس میں کیا بات کہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse