Jump to content

یتیم شہزادہ کی ٹھوکریں

From Wikisource
یتیم شہزادہ کی ٹھوکریں
by حسن نظامی
319519یتیم شہزادہ کی ٹھوکریںحسن نظامی

ماہ عالم ایک شہزادے کا نام تھا، جو شاہ عالم بادشاہ دلی کے نواسوں میں تھا اور غدر میں اس کی عمر گیارہ برس کی تھی۔ شہزادہ ماہ عالم کے باپ مرزا نوروز حیدر دیگر خاندان شاہی کی طرح بہادر شاہ کی سرکار سے سو روپے ماہوار تنخواہ پاتے تھے۔ مگر ان کی والدہ کے پاس قدیم زمانہ کا بہت سا اندوختہ تھا، اس لیے ان کو روپیہ کی چند اں پرواہ نہیں تھی اور وہ بڑی بڑی تنخواہوں کے شہزادوں کی طرح گذر اوقات کرتے تھے۔

جب غدر پڑا تو ماہ عالم کی والدہ بیمار تھیں۔ علاج ہورہا تھا مگر مرض برابر ترقی کرتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ عین اس روز جب کہ بہادر شاہ قلعہ سے نکلے اور شہر کی تمام رعایا پریشان ہو کر چاروں طرف بھاگنے لگی، ماہ عالم کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ ایسی گھبراہٹ کے موقعہ پر سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ اس موت نے عجیب ہر اس پیدا کر دیا۔

اس وقت نہ کفن کا سامان ممکن تھا نہ دفن کا، نہ غسل دینے والی عورت میسر آسکتی تھی، نہ کوئی مردے کے پاس بیٹھنے والا تھا۔ شہزادوں میں رسم ہوگئی تھی کہ وہ مردے کے پاس نہ جاتے۔ سب کام پیشہ وروں سے لیا جاتا تھا، جو اس وقت کے لیے ہمیشہ موجود تیار رہتے تھے۔ غدر کی عالم گیر مصیبت کے سبب کوئی آدمی ایسا نہ ملا جو تجہیز و تکفین کی خدمت میں انجام کو پہنچاتا۔ گھر میں دولونڈیاں تھیں لیکن وہ بھی مردے کو نہلانا نہ جانتی تھیں۔ خود مرزا نوروز حیدر اگر چہ پڑھے لکھے شخص تھے مگر چونکہ ان کو ایسا کام پیش نہ آیا تھا، اس لیے اسلامی طریق پر غسل و کفن سے واقفیت نہ رکھتے تھے۔

القصہ ان لوگوں کو اسی حیرانی و پریشانی میں کئی گھنٹے گذر گئے۔ اتنے میں سنا کہ انگریزی لشکر شہر میں گھس آیا ہے اور اب عنقریب قلعہ میں آیا چاہتا ہے۔ اس خبر سے مرزا کے رہے سہے اوسان اور بھی جاتے رہے اور جلدی سے لاش کو چارپائی پر ہی کپڑے اتار کر نہلانا شروع کیا۔ نہلایا کیا بس پانی کے لوٹے بھربھر کر اوپر ڈال دیے۔ کفن کہاں سے ملتا، شہر تو بند تھا۔ پلنگ پر بچھانے کی دوا جلی چادریں لیں اور ان میں لاش کو لپیٹ دیا۔ اب یہ فکر ہوئی کہ دفن کہاں کریں۔ باہر لے جانے کا تو موقعہ نہیں۔ اسی سوچ میں تھے کہ گوروں اور سکھوں کی فوج کے چند سپاہی گھر میں آگئے اور آتے ہی مرزا اور ان کے لڑکے ماہ عالم کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد گھر کا سامان لوٹنے لگے۔ صندوق توڑ ڈالے۔ الماریوں کے کواڑا کھیڑ دیے۔ کتابوں کو آگ لگا دی۔

دونوں لونڈیاں غسل خانے میں جا چھپی تھیں۔ ایک سپاہی کی ان پر نگاہ پڑ گئی جس نے دیکھتے ہی اندر گھس کر سر کے بال پکڑے اور بچاریوں کو گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا۔ اگر چہ ان فوجیوں کو لاش کا حال معلوم ہو گیا تھا مگر انہوں نے اس کی مطلق پرواہ نہ کی اور برابر لوٹ مار کرتے رہے۔ آخر قیمتی سامان کی گٹھریاں، لونڈیوں اور خود مرزا نوروز حیدر اور ان کے لڑکے ماہ عالم کے سر پر رکھیں اور بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے گھر سے باہر لے چلے۔ اس وقت مرزا نے اپنے لٹے ہوئے گھر کو آخری حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور اپنی بیوی کی بے گور و کفن لاش کو اکیلا چار پائی پر چھوڑ کر سپاہیوں کے ساتھ کوچ کیا۔

لونڈیوں کو تو بوجھ اٹھانے اور چلنے پھرنے کی عادت تھی۔ مرزا نوروز حیدر بھی قوی اور توانا تھے۔ بوجھ سرپر اٹھائے بے تکان چل رہے تھے مگر غریب ماہ عالم کی بری حالت تھی۔ اول تو اس کے سر پر بوجھ اس کی عمر اور بساط سے زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ یہ شہزادہ قدرتی طور پر نہایت نازک اور کمزور واقع ہوا تھا۔ اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ ماں کے مرنے کا غم تھا۔ رات سے روتے روتے آنکھیں سوج گئی تھیں۔ خالی ہاتھ چلنے سے چکر آتے تھے، کجا یہ نوبت کہ سر پر بوجھ، پیچھے چمکتی ہوئی تلواریں اور جلدی چلنے کی قہر ناک تاکید۔ بچارے کے پاؤں لڑکھڑاتے تھے۔ دم چڑھ گیا تھا۔ بدن پسینہ پسینہ ہو گیا تھا۔ آخر نہایت مجبوری کی حالت میں باپ سے کہا، ’’ابا حضرت! مجھ سے تو چلا نہیں جاتا۔ گردن بوجھ کے مارے ٹوٹے جاتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ رہا ہے۔ ایسا نہ ہو گر پڑوں۔‘‘

باپ سے اپنے لاڈلے اکلوتے بچہ کی یہ مصیبت بھری باتیں سنی نہ گئیں۔ اس نے مڑ کر سپاہی سے کہا، ’’صاحب! اس بچہ کا اسباب بھی مجھ کو دے دو۔ یہ بیمار ہے گر پڑے گا۔‘‘ گورا مرزا کی زبان بالکل نہ سمجھا اور اس طرح ٹھہرنے اور بات کرنے کو گستاخی اور بدنیتی سمجھ کر دو تین مکے کمر میں مارے اور آگے دھکا دیا۔ مظلوم مرزا نے مار بھی کھائی مگر مامتا کے مارے لڑکے کا بوجھ بغل میں لے لیا۔ گورے کو یہ حرکت بھی پسند نہ آئی اور اس نے جبراً مرزا سے گٹھری لے کر ماہ عالم کے سر پر رکھ دی اور ایک گھونسا اس بیکس وناتواں کے بھی مارا۔ گھونسا کھا کر ماہ عالم آہ کہہ کر گر پڑا اور بیہوش ہوگیا۔

مرزا نوروز اپنے لخت جگر کی حالت دیکھ جوش میں آگئے اور اسباب پھینک کر ایک مکا گورے کے کلے پر رسید کیا اور پھر فوراً ہی دوسرا گھونسا اس کی ناک پر مارا جس سے گورے کی ناک کا بانسہ پھٹ گیا اور خون کا فوارہ چلنے لگا۔ سکھ سپاہی دوسری طرف چلے گئے تھے۔ اس وقت فقط دو گورے ان قیدیوں کے ساتھ تھے اور کیمپ کو لیے جا رہے تھے۔ دوسرے گورے نے اپنے ساتھی کی یہ حالت دیکھ کر مرزا کے ایک سنگین ماری مگر خدا کی قدرت سنگین کا وار اوچھا پڑا اور وہ مرزا کی کمر کے پاس سے کھال چھیلتی ہوئی نکل گئی۔ تیموری شہزادہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور لپک کر ایک مکا اس گورے کی ناک پر بھی مارا۔ یہ مکا بھی ایسا کاری پڑا کہ ناک پچک گئی اور خون بہنے لگا۔ گورے یہ حالت دیکھ کر پستول و کرچ تو بھول گئے اور ایک بارگی دونوں کے دونوں مرزا کو چمٹ گئے اور گھونسوں سے مارنے لگے۔

لونڈیوں نے جو یہ حالت دیکھی تو اسباب پھینک رستہ کی خاک مٹھیوں میں بھر کر گوروں کی آنکھوں میں جھونک دی۔ اس ناگہانی آفت سے گورے تھوڑی دیر کے لیے بیکار ہوگئے اور ان کی کرچ مرزا کے ہاتھ آگئی۔ مرزا نے فوراً کرچ گھسیٹ لی۔ ایک ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ کرچ نے شانہ سے سینے تک کاٹ ڈالا۔ اس کے بعد دوسرے گورے پر حملہ کیا اور اسے بھی ذبح کر دیا۔ ان دونوں کو ہلاک کر کے ماہ عالم کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ بالکل بیہوش تھا۔ باپ کے گود میں لیتے ہی آنکھیں کھول دیں اور باہیں گلی میں ڈال کر رونے لگا۔

مرزا اسی حالت میں تھے کہ پیچھے سے دس بارہ گورے اور سکھ سپاہی آگئے اور انہوں نے اپنے دوساتھیوں کو خون میں نہایا دیکھ کر مرزا کو گھیر لیا اور لڑکے سے جدا کر کے حال پوچھا۔ مرزا نے سارا واقعہ سچ سچ کہہ دیا۔ سنتے ہی گوروں کی حالت غصہ سے غیر ہوگئی۔ انہوں نے پستول کے چھ فیریک دم کر دیے، جن سے زخمی ہو کر مرزا گر پڑے اور آناً فاناً میں تڑپ کر مرگئے۔ مرزا نوروز کی لاش کود ہیں چھوڑ دیا گیا اور ماہ عالم کو لونڈیوں سمیٹ پہاڑی کے کیمپ میں لے گئے۔

جب دہلی کی فتح سے اطمینان ہو گیا تو لونڈیاں دو مسلمان پنجابی افسروں کو دے دی گئیں اور ماہ عالم ایک انگریز افسر کی خدمت گاری پر مامور ہوئے۔ جب تک یہ انگریز دہلی میں رہے، ماہ عالم کو زیادہ تکلیف نہ تھی، کیوں کہ صاحب کے پا س کئی خانساماں اور نوکر چاکر تھے۔ اس واسطے زیادہ کام کاج نہ کرنا پڑتا تھا لیکن چند روز کے بعد یہ صاحب رخصت لے کر ولایت چلے گئے اورماہ عالم کو ایک دوسرے افسر کے حوالے کر گئے، جو میرٹھ چھاؤنی میں تھے۔ ان افسر کا مزاج تند تھا۔ بات بات پر ٹھوکر یں مارتے تھے۔ ماہ عالم اس مار دھاڑ کو برداشت نہ کر سکے اور ایک دن بھاگنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ پچھلی رات کو گھر سے نکلے۔ پہرے دارنے ٹوکا تو کہہ دیا فلاں صاحب کا نوکر ہوں اوران کے کام کو فلاں گاؤں میں جاتا ہوں تاکہ سویرے ہی پہنچ جاؤں۔ اس حیلہ سے جان بچائی اور جنگل کا راستہ لیا۔

چھوٹی عمر، راستہ سے بے خبر، پکڑے جانے کا خوف، عجب مایوسی کا عالم تھا۔ آخر بہزار دقت صبح ہوتے ہوتے میرٹھ سے تین چار کوس کے فاصلہ پر پہنچ گئے۔ سامنے گاؤں تھا۔ وہاں جاکر ایک مسجد میں ٹھہر گئے۔ ملا صاحب نے سوالات شروع کیے، تو کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جائے گا؟ ماہ عالم نے ان کو بھی باتوں میں ٹالا۔ یہاں ایک فقیر بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے جو ماہ عالم کی شریفانہ صورت دیکھی تو محبت سے پاس بلایا اور رات کی بچی ہوئی روٹی سامنے رکھی۔ ماہ عالم نے شاہ صاحب کو ہمدرد پا کر اپنی مصیبت کی داستان اول سے آخر تک سنائی۔ شاہ صاحب یہ کیفیت سن کر رونے لگے اور ماہ عالم کو سینہ سے لگا کر بہت پیار کیا اور تسلی کی باتیں کرنے لگے۔ اس کے بعد کہا اب تم فکر نہ کرو میرے ساتھ رہو۔ خدا حافظ و ناصر ہے۔

چنانچہ انہوں نے ایک رنگین کرتہ ان کو پہنا دیا اور ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے۔ دو چار روز تو یہ حالت رہی کہ جہاں ماہ عالم نے کہا، ’’حضرت! اب تو میں تھک گیا۔‘‘ تو کسی گاؤں میں ٹھہر جاتے، لیکن پھر ان کو بھی چلنے کی عادت ہو گئی اور پوری منزل چلنے لگے۔ مہینہ بھر میں اجمیر شریف پہنچے۔ یہاں ان صاحب کے پیر جو بغداد کے رہنے والے تھے، ملے۔ ان پیر صاحب کو جب ماہ عالم کا حال معلوم ہوا تو وہ بھی مہربانی سے پیش آئے اور ان دونوں کو ساتھ لے کر بمبئی چلے گئے۔ بمبئی کے قریب باندرہ میں شاہ صاحب رہتے تھے۔ وہیں ان کو بھی رکھا اور کئی برس یہاں رہ کر ماہ عالم نے قرآن شریف اور مسئلہ مسائل کی کتابیں پڑھیں اور نماز روزے سے خوب واقف ہوگئے۔

ماہ عالم کہتے ہیں کہ جب میں خوب ہوشیار ہوگیا، تو ایک دن میں نے بغدادی شاہ صاحب سے مرید ہونے کی درخواست کی۔ شاہ صاحب نے فرمایا، ’’میاں تم تو مریدوں کی مثل ہو۔‘‘ میں نے عرض کیا، ’’ نہیں جناب! قاعدہ اور طریقہ کے موافق داخل سلسلہ فرما لیجیے۔‘‘ یہ سن کر شاہ صاحب آنکھوں میں آنسو بھرلائے اور بولے، ’’ مریدی بڑی مشکل چیز ہے۔ لوگوں نے اس کو ہنسی کھیل سمجھ لیا ہے۔ رسمی طور مرید ہوتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ مریدی کیا ہوتی ہے اور اس کے کیا آداب اور کیا فرائض ہیں۔ جتنی ٹھوکریں تم نے آج تک کھائی ہیں۔ اس سے ہزار درجہ زیادہ قدم قدم پر امتحان ہیں۔ بابا! یہ راستہ بڑا کٹھن ہے اور فقیری کے کوچہ میں ہزاروں ٹھوکریں ہیں۔ آج کل کے لوگ دنیاوی خواہشوں کے پورا ہونے کے لیے مرید ہوتے ہیں، حالانکہ مریدی اس کا نام ہے کہ تمام خواہشیں اور تمنائیں مٹا کر پیر کا دامن پکڑے اور اگر از خود وہ خواہشیں نہ مٹ سکیں تو پیر سے یہی درخواست کی جائے کہ پہلے وہ انسانی جذبات کو فنا کرے۔

میاں صاحب زادے! فقیری بھی ایک طرح کی بادشاہت ہے۔ جیسے بادشاہوں کو ملکی انتظام کے لیے لائق کارکنوں کی ضرورت ہوتی ہے، فقراء بھی اقلیم باطن کا نظم و نسق ذی ہوش لوگوں کے سپرد کرتے ہیں۔ بہادر شاہ کو انگریزوں کے مقابلے میں اسی لیے شکست ہوئی کہ ان کے پاس کام کر سکنے والے آدمی نہ تھے، ورنہ ایسی حالت میں کہ تمام ملک کی ہمدردی بادشاہ کے ساتھ تھی، انگریز کیا کر سکتے تھے۔ مگر انگریزوں کی لیاقت اور ملک داری کی قابلیت نے ان کو فتح دلائی اور بادشاہ ہار گئے۔

یہی حال درویشی فقیری کا ہے۔ انسان کے غنیم نفس و شیطان رات دن دولت ایمان لوٹنے کی درپے رہتے ہیں اور فقیر اپنے باطنی کمالات سے دشمنوں کو زک دے کر زیر کرتے ہیں، لیکن جب فقیروں میں کمالات مفقود ہوجائیں گے تو نفس شیطانی آسانی سے ایمان کے تاج و تخت پر قبضہ کرلیں گے۔ اس زمانے میں چونکہ فقرا کی حالت اپنے طریقہ سے بالکل خلاف ہوگئی ہے، اس لیے مریدوں کی کیفیت بھی دگر گوں ہوگئی۔ تم کو چاہئے کہ پہلے اچھی طرح پیری مریدی کے فرائض اور کاموں کو سمجھ لو اس کے بعد مرید ہونا۔‘‘


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.