یا صبر ہو ہمیں کو اس طرف جو نہ نکلیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یا صبر ہو ہمیں کو اس طرف جو نہ نکلیں
by میر حسن دہلوی

یا صبر ہو ہمیں کو اس طرف جو نہ نکلیں
یا اپنے گھر سے بن بن یہ خوبرو نہ نکلیں

ہوتی نہیں تسلی دل کو ہمارے جب تک
دو چار بار اس کے کوچہ سے ہو نہ نکلیں

دل ڈھونڈھنے چلے ہیں کوچہ میں تیرے اپنا
ڈرتے ہیں آپ کو بھی ہم واں سے کھو نہ نکلیں

کوئی بھی دن نہ گزرا ایسا کہ اس گلی سے
زخمی ہو مبتلا ہو جو ایک دو نہ نکلیں

دل اور جگر لہو ہو آنکھوں تلک تو پہنچے
کیا حکم ہے اب آگے نکلیں کہو نہ نکلیں

بستی میں تو دل اپنا لگتا نہیں کہو پھر
صحرا کی طرف کیوں کر اے ناصحو نہ نکلیں

گر وہ نقاب اٹھا دے چہرے سے تو حسنؔ پھر
کچھ غم نہیں مہ و مہر عالم میں گو نہ نکلیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse