یا رب کہیں سے گرمئ بازار بھیج دے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یا رب کہیں سے گرمئ بازار بھیج دے
by مرزا محمد رفیع سودا

یا رب کہیں سے گرمئ بازار بھیج دے
دل بیچتا ہوں کوئی خریدار بھیج دے

اپنی بساط میں تو یہی دل ہے میری جاں
لیتا نہیں تو کیا کروں اے یار بھیج دے

دعویٰ جو برشگال کو آنکھوں سے ہے مری
ایسا کوئی جو ابر گہربار بھیج دے

دیتے ہیں عقد حسن میں عاشق عروس جاں
آتا نہیں جو آپ تو تلوار بھیج دے

سوداؔ سے غم گسار کا تھا دل یہ تیں لیا
اس کے عوض بھلا کوئی غم خوار بھیج دے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse