یاں کسے غم ہے جو گریہ نے اثر چھوڑ دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یاں کسے غم ہے جو گریہ نے اثر چھوڑ دیا
by نظام رامپوری

یاں کسے غم ہے جو گریہ نے اثر چھوڑ دیا
ہم نے تو شغل ہی اے دیدۂ تر چھوڑ دیا

دل بے تاب کا کچھ دھیان نہ آیا اس دم
ہائے کیوں ہم نے اسے وقت سحر چھوڑ دیا

کیا ستائے نہیں جاتے ہیں ولیکن چپ ہیں
شکوہ کرنا ترا اے رشک قمر چھوڑ دیا

دم رخصت کبھی کچھ دل کی تمنا نہ کہی
دامن یار ادھر پکڑا ادھر چھوڑ دیا

دل کی الفت نہ سہی پیار کی باتیں نہ سہی
دیکھنا بھی تو ادھر ایک نظر چھوڑ دیا

غیر کے دھوکے میں خط لے کے مرا قاصد سے
پڑھنے کو پڑھ تو لیا نام مگر چھوڑ دیا

غیر سے وعدہ و اقرار ہوئے کیا کیا کچھ
میرے خوش کرنے کو اک فقرہ ادھر چھوڑ دیا

میں نہ کہتا تھا کہ بہکائیں گے تم کو دشمن
تم نے کس واسطے آنا مرے گھر چھوڑ دیا

منہ سے جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھا دیں گے تمہیں
بے قراری نے ہمیں چین پہ گر چھوڑ دیا

حور بھی سامنے اب آئے تو کب دیکھیں نظامؔ
برسیں گزریں ہمیں وہ شوق نظر چھوڑ دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse