یاں سے پیغام جو لے کر گئے معقول گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یاں سے پیغام جو لے کر گئے معقول گئے
by میر حسن دہلوی

یاں سے پیغام جو لے کر گئے معقول گئے
اس کی باتوں میں لگے ایسے کہ سب بھول گئے

تو تو معشوق ہے تجھ کو تو بہت عاشق ہیں
غم انہوں کا ہے جو وہ جان سے نرمول گئے

بے کلی اپنی کا اظہار تو کرتا نہیں میں
گل رخاں دیکھ کے تم مجھ کو عبث بھول گئے

کیونکہ کھٹکا نہ رہے سب کو ادھر جانے کا
آہ کیا کیا نہ اسی خاک میں مقبول گئے

اپنی نیکی و بدی چھوڑ گئے دنیا میں
گرچہ دونوں نہ رہے قاتل و مقتول گئے

زلف میں اس کی بہت رہ کے نہ اترائیو دل
مجھ سے کتنے ہی مری جان یہاں جھول گئے

پہلی باتوں کا محبت کی حسنؔ ذکر نہ کر
بس وہ دستور گئے اور وہ معمول گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse