یاں سدا نیش بلا وقف جگر ریشی ہے
Jump to navigation
Jump to search
یاں سدا نیش بلا وقف جگر ریشی ہے
کیجے کیا جان مری عالم درویشی ہے
اپنے مذہب میں قرابت نہیں اجداد کی شرط
تجھ سے نسبت ہے جسے اس سے ہمیں خویشی ہے
مجھ سے اک خستہ سے ناحق یہ شب و روز خلش
اے جفا پیشہ یہ کیا نحو ستم کیشی ہے
بات ہے شہرہ نصیبی کی نرالی ورنہ
مجھ پہ کس چیز میں مجنوں کے تئیں بیشی ہے
گوہر اشک کو نشمردہ تو قائمؔ نہ بکھیر
آدمی ہے و میاں عاقبت اندیشی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.
Public domainPublic domainfalsefalse