یار کے تیر کا نشانہ ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یار کے تیر کا نشانہ ہوں
by جوشش عظیم آبادی

یار کے تیر کا نشانہ ہوں
اپنے طالع کا میں دوانا ہوں

ناتوانی بھی دیکھ کر مجھ کو
لگی رونے میں وہ توانا ہوں

دیکھ دیکھ اس کی زلف ابتر کو
دل یہی چاہتا ہے شانہ ہوں

مو پریشاں ہے چشم زار و طرار
شجر بید ہی سے مانا ہوں

اس سے چشم وفا رکھوں ؔجوشش
میں بھی تیری طرح دوانا ہوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.