یار کے بن بہار کیا کیجے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یار کے بن بہار کیا کیجے
by مرزا جواں بخت جہاں دار

یار کے بن بہار کیا کیجے
گل نہ ہووے تو خار کیا کیجے

کام میرا تو ہو چلا آخر
اے مرے کردگار کیا کیجے

کوئی وعدہ وفا نہیں کرتا
وہ تغافل شعار کیا کیجے

مثل آئینہ خود نما میرا
سب سے ہو ہے دو چار کیا کیجے

سوز دل میرا مجھ کو دے ہے جلا
آہ مثل چنار کیا کیجے

عشق نے کر دیا مجھے مجبور
اب نہیں اختیار کیا کیجے

مثل زلف بتاں فسانۂ دل
ہے طویل اختصار کیا کیجے

گزری جو دل پہ میرے ہو گزری
اس کا اب اشتہار کیا کیجے

دل تو گلچیں ہے تیرے گلشن کا
لے کے گل رو ہزار کیا کیجے

وہ تو آتا نہیں ہے میرے پاس
اے دل بے قرار کیا کیجے

بے طرح ہے مجھے یہ مشکل عشق
صاحب ذوالفقار کیا کیجے

اے جہاں دارؔ سب جہاں ڈھونڈا
نئیں کوئی غم گسار کیا کیجے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse