یار کہتا ہے تجلئ لقا تھی میں نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یار کہتا ہے تجلئ لقا تھی میں نہ تھا
by جمیلہ خدا بخش

یار کہتا ہے تجلئ لقا تھی میں نہ تھا
طور سینا پر وہی جلوہ نما تھی میں نہ تھا

گنبد افلاک پر جس کا ہوا اکثر گزر
وہ دل بیمار غم کی اک دعا تھی میں نہ تھا

ہر طرف تھی عالم امکاں میں جو پھیلی ہوئی
میرے اسرار حقیقت کی ضیا تھی میں نہ تھا

مثل بوئے گل ترے کوچہ میں تھا جس کا گزر
اے صنم وہ میری جان مبتلا تھی میں نہ تھا

بوستاں میں طالب دیدار تھی جو آپ کی
وہ گل نرگس کی چشم با ضیا تھی میں نہ تھا

بعد مردن قبر میں مجھ کو سلا کر یہ کہا
درد تھا بیتابیاں تھیں اور قضا تھی میں نہ تھا

اک جھلک دکھلا کے اپنی کس ادا سے کہہ گیا
جس کو دیکھا وہ بھی شان کبریا تھی میں نہ تھا

جس نے چوما وقت پامالی قدوم ناز کو
خون دل با شوخئ رنگ حنا تھی میں نہ تھا

درگزر کر آئنے سے آپ نے موڑا ہے منہ
اس میں میری حسرت حیرت فزا تھی میں نہ تھا

زاری و شیون ہماری کب سنی ہیں آپ نے
بوستاں میں بلبل نغمہ سرا تھی میں نہ تھا

اڑ کے جو پہنچی صبا کے ساتھ گلیوں میں تری
مشت خاک کشتۂ تیغ ادا تھی میں نہ تھا

دیکھ کر ان کو جو میں فرط مسرت سے مرا
وہ لگے کہنے کہ یہ اس کی قضا تھی میں نہ تھا

تھا میں تصویر خیالی ہستئ موہوم میں
وہ بھی شان عشق شاہ دو سرا تھی میں نہ تھا

اے جمیلہؔ بوستان عشق میں وقت سحر
نکہت گل سی جو پہنچی وہ صبا تھی میں نہ تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.