یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
by حیدر علی آتش

یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالع بیدار نے سونے نہ دیا

خاک پر سنگ در یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا

شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادیٔ دولت دیدار نے سونے نہ دیا

ایک شب بلبل بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا

جب لگی آنکھ کراہا یہ کہ بد خواب کیا
نیند بھر کر دل بیمار نے سونے نہ دیا

درد سر شام سے اس زلف کے سودے میں رہا
صبح تک مجھ کو شب تار نے سونے نہ دیا

رات بھر کیں دل بے تاب نے باتیں مجھ سے
رنج و محنت کے گرفتار نے سونے نہ دیا

سیل گریہ سے مری نیند اڑی مردم کی
فکر بام و در و دیوار نے سونے نہ دیا

باغ عالم میں رہیں خواب کی مشتاق آنکھیں
گرمیٔ آتش گلزار نے سونے نہ دیا

سچ ہے غم خواریٔ بیمار عذاب جاں ہے
تا دم مرگ دل زار نے سونے نہ دیا

تکیہ تک پہلو میں اس گل نے نہ رکھا آتشؔ
غیر کو ساتھ کبھی یار نے سونے نہ دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse