یار کا دھیان ہم نہ چھوڑیں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یار کا دھیان ہم نہ چھوڑیں گے
by میر حسن دہلوی

یار کا دھیان ہم نہ چھوڑیں گے
اپنی یہ آن ہم نہ چھوڑیں گے

جب تلک دم میں ہے ہمارے دم
تجھ کو اے جان ہم نہ چھوڑیں گے

تیرے ہاتھوں سے اے جنوں ثابت
یہ گریبان ہم نہ چھوڑیں گے

ہے بڑا کفر ترک عشق بتاں
اپنا ایمان ہم نہ چھوڑیں گے

بعد مجنوں کے شور سے خالی
یہ بیابان ہم نہ چھوڑیں گے

دل میں اور ہم میں ہے یہ قول و قرار
اس کو ہر آن ہم نہ چھوڑیں گے

دل نہ چھوڑے گا تیرا دامن اور
دل کا دامان ہم نہ چھوڑیں گے

بن لئے بوسہ آج تو تجھ کو
مان مت مان ہم نہ چھوڑیں گے

ہے حسنؔ واں یہی جو بے قرنی
کب تلک شان ہم نہ چھوڑیں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse