یار سے دست و گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یار سے دست و گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا
by منتظر لکھنوی

یار سے دست و گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا
کبھی اتنا میں پشیماں نہ ہوا تھا سو ہوا

واقعی جائے ندامت تو یہی ہے کہ کبھو
مجھ سے جو کام عزیزاں نہ ہوا تھا سو ہوا

تجھ کو دیکھے کوئی اور اس سے خفا ہونا ہائے
کیا کروں اے دل ناداں نہ ہوا تھا سو ہوا

کر کے نظارہ تن صاف کا اس کے ہیہات
شکل آئینہ جو حیراں نہ ہوا تھا سو ہوا

ہنستے ہنستے نہ سنا تھا کہیں ہو خانہ خراب
رؤو اب دیدۂ گریاں نہ ہوا تھا سو ہوا

بال وے بکھرے ہوئے دیکھ کے رخ پر اس کے
کبھو کافر جو مسلماں نہ ہوا تھا سو ہوا

منتظرؔ اس دل بیتاب کے ہاتھوں شب وصل
کیا کہیں تم سے میاں جو نہ ہوا تھا سو ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse