یارو نہیں اتنا مجھے قاتل نے ستایا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یارو نہیں اتنا مجھے قاتل نے ستایا
by شاہ نصیر

یارو نہیں اتنا مجھے قاتل نے ستایا
جتنا کہ مرے دشمن جاں دل نے ستایا

کچھ سرزنش کار کا شاکی وہ نہیں ہے
مجنوں کو تو ہے صاحب محمل نے ستایا

غنچہ کہوں یا درج گہر تیرے دہن کو
کھلنا نہیں اس عقدۂ مشکل نے ستایا

آرام سے سویا نہ کمر کا تری کشتہ
مرقد میں بھی موران تہہ گل نے ستایا

اس کا مجھے شب یاد دلایا رخ پر نور
شکل اپنی دکھا کر مہ کامل نے ستایا

میرا دل سودا زدہ کرتا نہ کبھی غل
اس کاکل پیچاں کے سلاسل نے ستایا

افیوں کی کسی روز میں کھا جاؤں گا گولی
بے وجہ رخ یار کے گر تل نے ستایا

جب بوسہ میں مانگوں ہوں تو کیا کہتے ہو منہ پھیر
ایسا تو کسی بھی نہیں سائل نے ستایا

ہر جا متجلی ہے وہ بے پردہ ولیکن
غفلت کے مجھے پردۂ حائل نے ستایا

تھا ایک تو صیاد گرفتار قفس میں
اور دوسرے آواز عنادل نے ستایا

اے ہم سفراں پیش روی کی نہیں طاقت
کیا کیجے ہمیں دورئ منزل نے ستایا

پہلو میں نصیرؔ آہ نہیں ہے دل مضطر
اس شعر غم آلودۂ بے دل نے ستایا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse