یاران نجد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یاران نجد
by خوشی محمد ناظر

اے باد صبح گاہی دل کی کلی کھلا دے
ویرانہ میرے دل کا رشک چمن بنا دے
اس بزم جاں فزا کا نظارہ پھر دکھا دے
گلزار آرزو میں پھر تازہ گل کھلا دے
یہ کارزار ہستی ہے رنج و غم کی بستی
پھر یاد بزم جم میں اک جام جم پلا دے
اب شام زندگی کی ظلمت ہے چھانے والی
وہ صبح دل کشا کا نظارہ پھر دکھا دے
پستی میں پا بہ گل ہے عمر رواں کا دریا
پھر اونچی وادیوں کے منظر اسے دکھا دے
وہ عہد شادمانی وہ عطر زندگانی
اے دور آسمانی واپس کہیں سے لادے
اے باغباں ہو تجھ کو تخت چمن مبارک
مجھ کو وہ ہم نوا دے وہ میرا گھونسلہ دے
کن حسرتوں سے ناظرؔ اس انجمن سے نکلے
میلا سا لگ رہا ہے جب ہم چمن سے نکلے
احوال بزم گلشن اے نامہ بر سنانا
وہ داستاں ہے دل کش رنگیں ہے وہ فسانہ
اس بزم دل کشا میں الفت کی اس فضا میں
تاروں کی روشنی میں یاروں کا مل کے گانا
کانوں میں رچ رہی ہے کوئل کی کوک اب تک
ناظرؔ کا ہے وظیفہ اس دھن میں گنگنانا
کالج کی سرزمیں تھی یا نقش دل نشیں تھی
دل سے خیال اس کا ممکن نہیں بھلانا
دریا میں مل کے جیسے ہوں ندیاں ہم آغوش
بیگانہ کل جو آیا وہ آج تھا یگانہ
بہر طواف جانا پیر مغاں کے در پر
اور اس کی اک نگہ سے سرمست ہو کے آنا
اس چشم مست میں تھی یہ طرفہ اک کرامت
پھرتی وہ جس طرف کو پھرتا ادھر زمانا
اے وقت رفتہ آ جا پھر وہ سماں دکھا جا
ایسا بھی کیا تھا جانا پھر لوٹ کر نہ آنا
اے ناخدا بھنور سے کشتی میری بچا کر
یاران آشنا سے بہر خدا ملانا
در فصل گل کہ گلشن نقش و نگار بندو
ناظرؔ خیال خود را اور بزم یار بندو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse