یاد ہیں وے دن تجھے ہم کیسے آواروں میں تھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یاد ہیں وے دن تجھے ہم کیسے آواروں میں تھے
by جوشش عظیم آبادی

یاد ہیں وے دن تجھے ہم کیسے آواروں میں تھے
خار تھے ہر آبلوں میں آبلے خاروں میں تھے

اے گلابی مست پھر منہ لگ کے اس کے اس قدر
لعل لب کے ایک دن ہم بھی پرستاروں میں تھے

لب تلک بھی آ نہیں سکتے ہیں مارے ضعف کے
آہ فوج غم کے جو جانے حولداروں میں تھے

سامنے کل خوش نگاہوں کے جو آیا مر گیا
دیکھا ٹک کیا ہی جواہر ان کی ترواروں میں تھے

میرے اس کے درمیاں حرف آیا جب انصاف کا
پھر گئے اک مرتبہ جتنے طرف داروں میں تھے

نالہ و آہ و فغاں درد و الم سوز و گداز
آہ کیسے کیسے ؔجوشش اپنے غم خواروں میں تھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse