یاد میں اپنے یار جانی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یاد میں اپنے یار جانی کی
by واجد علی شاہ

یاد میں اپنے یار جانی کی
ہم نے مر مر کے زندگانی کی

دوستوں کو عدو کیا ہم نے
کر کے تعریف یار جانی کی

کیوں نہ رسوا کرے زمانے میں
یہ کہانی غم نہانی کی

روح ہوے گی حشر میں صاحب
اک نشانی سرائے فانی کی

خاکساری سے بڑھ گیا انساں
ارض پر سیر آسمانی کی

زرد صورت پہ ہجر میں نہ ہنسو
شرح ہے رنگ زعفرانی کی

آج کل لکھنؤ میں اے اخترؔ
دھوم ہے تیری خوش بیانی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse