یاد آ کے تری ہجر میں سمجھائے گی کس کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یاد آ کے تری ہجر میں سمجھائے گی کس کو
by جلالؔ لکھنوی

یاد آ کے تری ہجر میں سمجھائے گی کس کو
دل ہی نہیں سینہ میں تو بہلائے گی کس کو

دم کھنچتا ہے کیوں آج یہ رگ رگ سے ہمارا
کیا جانے ادھر دل کی کشش لائے گی کس کو

اٹھنے ہی نہیں دیتی ہے جب یاس بٹھا کر
پھر شوق کی ہمت کہیں لے جائے گی کس کو

جب مار ہی ڈالا ہمیں بے تابئ دل نے
کروٹ شب فرقت میں بدلوائے گی کس کو

مر جائیں گے بے موت غم ہجر کے مارے
آئے گی تو اب زندہ اجل پائے گی کس کو

اچھا رہے تصویر کسی کی مرے دل پر
کمبخت نہ ٹھہرے گا تو ٹھہرائے گی کس کو

کچھ بیٹھ گیا دل ہی یہاں بیٹھ کے اپنا
غیرت تری محفل سے اب اٹھوائے گی کس کو

اس وعدہ خلافی نے اگر جان ہی لے لی
پھر جھوٹی تسلی تری تڑپائے گی کس کو

کیوں لیں گے جلالؔ آ کے مرے دل میں وہ چٹکی
جھپکے گی پلک کاہے کو نیند آئے گی کس کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse