یاد آتی ہیں ہمیں جان تمہاری باتیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یاد آتی ہیں ہمیں جان تمہاری باتیں
by بخش ناسخ

یاد آتی ہیں ہمیں جان تمہاری باتیں
ہائے وہ پیار کی آواز وہ پیاری باتیں

پہروں چپ رہتے ہیں ہم اور اگر بولتے ہیں
وہی پھر پھر کے الٹتی ہیں تمہاری باتیں

غیر ہر دم مجھے باتیں جو سنا جاتے ہیں
جانتا ہوں یہ میں اے جان تمہاری باتیں

یاد آتا ہے ترا کیا کے عوض کا کہنا
ہائے پھر کب میں سنوں گا وہ گنواری باتیں

ہے بری بات یہ اغیار سے باتیں کرنی
ورنہ اے جان تری اچھی ہیں ساری باتیں

اس طرح بول نکلتے نہ سنے تھے ہم نے
کرتی ہے صاف صنم تیری ستاری باتیں

تو وہ اعجاز بیاں ہے کہ مسیحا سمجھیں
سن لیں اے جان کسی دن جو جواری باتیں

اس لیے اشک بہاتا ہوں دم فکر سخن
کہ ہمیشہ رہیں دنیا میں یہ جاری باتیں

تو وہ گل ہے کہ اگر کان دھرے گلشن میں
ہو زباں موج کرے باد بہاری باتیں

کیجیے سحر بیانی سے مسخر کیوں کر
کبھی سنتا نہیں ناسخؔ وہ ہماری باتیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.