یاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یاد
by جگر مراد آبادی

آئی جب ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی

ہر منظر جمال دکھاتی چلی گئی
جیسے انہیں کو سامنے لاتی چلی گئی

ہر واقعہ قریب تر آتا چلا گیا
ہر شے حسین تر نظر آتی چلی گئی

ویرانۂ حیات کے ایک ایک گوشہ میں
جوگن کوئی ستار بجاتی چلی گئی

دل پھنک رہا تھا آتش ضبط فراق سے
دیپک کو مے گسار بناتی چلی گئی

بے حرف و بے حکایت و بے ساز و بے صدا
رگ رگ میں نغمہ بن کے سماتی چلی گئی

جتنا ہی کچھ سکون سا آتا چلا گیا
اتنا ہی بے قرار بناتی چلی گئی

کیفیتوں کو ہوش سا آتا چلا گیا
بے کیفیوں کو نیند سی آتی چلی گئی

کیا کیا نہ حسن یار سے شکوے تھے عشق کو
کیا کیا نہ شرمسار بناتی چلی گئی

تفریق حسن و عشق کا جھگڑا نہیں رہا
تمئیز قرب و بعد مٹاتی چلی گئی

میں تشنہ کام شوق تھا پیتا چلا گیا
وہ مست انکھڑیوں سے پلاتی چلی گئی

اک حسن بے جہت کی فضائے بسیط میں
اڑتی گئی مجھے بھی اڑاتی چلی گئی

پھر میں ہوں اور عشق کی بیتابیاں جگرؔ
اچھا ہوا وہ نیند کی ماتی چلی گئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse