ہے یہ تکیہ تری عطاؤں پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے یہ تکیہ تری عطاؤں پر
by الطاف حسین حالی

ہے یہ تکیہ تری عطاؤں پر
وہی اصرار ہے خطاؤں پر

رہیں نا آشنا زمانہ سے
حق ہے تیرا یہ آشناؤں پر

رہروو با خبر رہو کہ گماں
رہزنی کا ہے رہنماؤں پر

ہے وہ دیر آشنا تو عیب ہے کیا
مرتے ہیں ہم انہیں اداؤں پر

اس کے کوچہ میں ہیں وہ بے پر و بال
اڑتے پھرتے ہیں جو ہواؤں پر

شہسواروں پہ بند ہے جو راہ
وقف ہے یاں برہنہ پاؤں پر

نہیں منعم کو اس کی بوند نصیب
مینہ برستا ہے جو گداؤں پر

نہیں محدود بخششیں تیری
زاہدوں پر نہ پارساؤں پر

حق سے درخواست عفو کی حالیؔ
کیجے کس منہ سے ان خطاؤں پر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.