ہے یاد یار سے اک آگ مشتعل دل میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے یاد یار سے اک آگ مشتعل دل میں
by برجموہن دتاتریہ کیفی

ہے یاد یار سے اک آگ مشتعل دل میں
عجب ہے خلد و جہنم ہیں متصل دل میں

جو چپکے چپکے ہمیں کچھ کہے وہ اپ سنے
پڑے اسی کو جو کوسے گا ہم کو دل دل میں

کرو گے اب بھی برائی مئے مغاں کی شیخ
نہ کہئے منہ سے مگر ہو گے تو خجل دل میں

گئے وہ پانی تو ملتان اب گنو موجیں
کہاں وہ جوش اب اے اشک پا بہ گل دل میں

علو یہ خوب ہوا آپ تم چلے آئے
میں کہتا ہی تھا کہ آج ان سے جا کے مل دل میں

پکڑ جو کل لیا چسکی لگاتے زاہد کو
بتاؤں کیا کہ ہوا کیسا منفعل دل میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse