ہے کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے
by نسیم دہلوی

ہے کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے
دل تو حاضر ہے مگر پژمردہ ہے

تو ہی آتا ہے نہ آتی ہے قضا
دیکھتے ہیں جس کو وہ آزردہ ہے

جس طرح جی چاہے رکھیں میرا دل
جانتے ہیں وہ کہ مال مردہ ہے

منزل الفت میں رکھیں تو قدم
رستم و سہراب کا کیا گردہ ہے

کون سنتا ہے تمہاری اے نسیمؔ
کس کو پاس خاطر افسردہ ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.