ہے وہی ناز آفریں آئینہ نیاز میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے وہی ناز آفریں آئینہ نیاز میں
by ناطق لکھنوی

ہے وہی ناز آفریں آئینہ نیاز میں
جس کی ضیا ہے سوز میں جس کی صدا ہے ساز میں

اپنے نیاز مند ہے پردے کی رسم و راہ ہے
ورنہ حجاب کو کہاں دخل حریم ناز میں

سجدے میں مر گیا اگر پھر نہ اٹھے گا حشر تک
قید نہ رکھیے وقت کی میرے لیے نماز میں

ناز کو نور کر دیا سرور کائنات نے
وہ جو لگی تھی طور پر آ کے بجھی حجاز میں

ناطقؔ سوختہ جگر دل پہ تو ہاتھ رکھ ذرا
اب کے بھی کچھ چمک سی تھی نالۂ جاں گداز میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse