ہے نگہباں رخ کا خال روئے دوست

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے نگہباں رخ کا خال روئے دوست  (1900) 
by حبیب موسوی

ہے نگہباں رخ کا خال روئے دوست
حافظ قرآں ہوا ہندوئے دوست

ہم نہ ہوں پتھر ہو ہم پہلوئے دوست
آئینہ لوٹے بہار روئے دوست

پھر گئی جب نرگس جادوئے دوست
سب مسلماں ہو گئے ہندوئے دوست

بھا گئی ہے دل کو ایسی خوئے دوست
آتی ہے ہر گل سے مجھ کو بوئے دوست

ہے خیال عارض و گیسوئے دوست
گہ مسلمان ہوں کبھی ہندوئے دوست

سو بلائیں آ گئیں عشاق پر
جب کمر تک آ گئے گیسوئے دوست

ہڈیاں میری نہ کھانا اے ہما
دانت رکھتے ہیں سگان کوئے دوست

آگ بھڑکے کیوں نہ پہلو میں مرے
غیر ہیں واں آج ہم پہلوئے دوست

اصل یہ ہے نقل محراب حرم
سجدہ واجب ہے تہہ ابروئے دوست

تیغ ابرو پر کٹے لاکھوں گلے
بن گیا گنج شہیداں کوئے دوست

دل ہوا مفتوں نگاہ یار کا
شیر افگن ہیں مگر آہوئے دوست

بعد مردن قبر میں آٹھوں پہر
آئے گا مجھ کو خیال روئے دوست

پھر رہا ہے آج پتلی کی طرح
میری آنکھوں میں قد دل جوئے دوست

ہے خیال خال مشکیں رات دن
دل کو میرے جان لو مشکوئے دوست

اب وہی سر ہے کہ ٹکراتا ہوں میں
وصل میں یہ تھا سر زانوئے دوست

کیا کوئی آفت ابھی باقی ہے اور
لے چلا ہے دل مجھے پھر سوئے دوست

لے اڑی بے ساختہ دل کو مرے
آ گئی جس دم ہوائے کوئے دوست

رنگ الفت سے مٹا زنگ دوئی
ہو گئی ہے مجھ میں پیدا بوئے دوست

غیرت منصور ہوں میں اے حبیبؔ
ہر گھڑی ہوں صرف ہا و ہوئے دوست


This work is published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.