ہے نقش درم جو نقش پا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے نقش درم جو نقش پا ہے
by خواجہ محمد وزیر

ہے نقش درم جو نقش پا ہے
آپ آتے تو گھر درم سرا ہے

دل جلوہ ترا دکھا رہا ہے
شیشہ یہ مرا پری نما ہے

سلطان جہاں ہے جو گدا ہے
تیمور ہر اک شکستہ پا ہے

انساں بھی قدرت خدا ہے
کیا سنگ کو بت بنا دیا ہے

شیریں ہے دہن کرو شکر خند
ہنسنے میں تمہاری اک مزا ہے

مضمون پروانے بن کے آئیں
شبدیز قلم چراغ پا ہے

یاران گزشت گاں سے ہے انس
زندہ مردوں پہ مر رہا ہے

آیا نہیں خود فروش میرا
گویا مجھے مول لے لیا ہے

وہ رشک بہار و غیرت گل
گلگشت چمن کو جو گیا ہے

گلزار ہوا ہے پانی پانی
بلبل پانی کا بلبلا ہے

جو چاہئے عشق میں کیا وہ
ہم مر گئے کہئے مرحبا ہے

ہے جھوٹا کہوں جو راست ہے قد
یہ توسن حسن الف ہوا ہے

منہ جس نے دیا وہ رزق دے گا
گویا یہ دہاں آسیا ہے

توبہ کا نہ در ہو بند یا رب
جب تک در میکدہ کھلا ہے

ہے شیشۂ سبز گرم قلقل
طوطی مستوں کا بولتا ہے

کیا جسم ہے صاف اس پری کا
گویا قد آدم آئنہ ہے

بیگانہ کوئی نظر نہ آیا
آئنہ بھی صورت آشنا ہے

کیا خوف گنہ وزیرؔ کو ہو
حامی سلطان انبیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse