ہے مفت دل کی قیمت اگر اک نظر ملے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے مفت دل کی قیمت اگر اک نظر ملے
by مفتی صدر الدین خان آزردہ

ہے مفت دل کی قیمت اگر اک نظر ملے
یہ وہ متاع ہے کہ نہ لیں مفت اگر ملے

انصاف کر کہ لاؤں میں پھر کون سا وہ دن
محشر کے روز بھی نہ جو داد جگر ملے

پروانہ وار ہے حد پرواز شعلہ تک
جلنے ہی کے لیے مجھے یہ بال و پر ملے

آنے سے خط کے جاتے رہے وہ بگاڑ سب
بن آئی اب تو حضرت دل لو خضر ملے

کیا شکر کا مقام ہے مرنے کی جاہے دل
کچھ مضطرب سے آج وہ بیرون در ملے

عالم خراب ہے نہ نکلنے سے آپ کے
نکلو تو دیکھو خاک میں کیا گھر کے گھر ملے

ہے شام ہجر آج او ظالم او فلک
گردش وہ کر کہ شام سے آ کر سحر ملے

گو پاس ہو پہ چین تو ہے اس بگاڑ میں
کیا لطف تھا لڑے وہ ادھر اور ادھر ملے

دل نے ملا دیں خاک میں سب وضع داریاں
جوں جوں رکے وہ ملنے سے ہم بیشتر ملے

ٹوٹے یہ بخیہ زخم کا ہمدم کہیں سے لا
خنجر ملے کٹار ملے نیشتر ملے

تھا اصل میں مراد ڈبونا جہان کا
قابل سمجھ کے گویا ہمیں چشم تر ملے

اس کی گلی میں لے گئے آزردہؔ کو اسے
دی تھی دعا یہ کس نے کہ جنت میں گھر ملے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse