ہے مرا تار نفس تار قفس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے مرا تار نفس تار قفس
by میر کلو عرش

ہے مرا تار نفس تار قفس
رشتہ برپا ہوں گرفتار قفس

مرغ دل کو ذبح اے صیاد کر
اور طائر ہیں سزاوار قفس

شوق بلبل کو اسیری کا جو ہو
ہو زر گل سے خریدار قفس

کیوں نہ میں رنگیں بیاں ہوں قید رنج
مرغ خوش خواں ہے سزاوار قفس

زندگی سے قید میں بھی ہوں سبک
گاہ بار دام گہہ بار قفس

مجھ سا بلبل قید ہو کر چھوٹ جائے
سو گئے کیا بخت بیدار قفس

چشم عالم میں اسیر دام ہے
روح ہے تن میں سزاوار قفس

پھاند کر آیا تھا دیوار چمن
پھاند جاؤں کیوں کہ دیوار قفس

کیا ہے داغ خون بلبل کی بہار
دیکھ اے صیاد گلزار قفس

کب کسی بلبل کو ملتا ہے گلاب
خون دل پیتا ہے بیمار قفس

ذبح کرنے کو اتارا نخل سے
سر مرا تھا پائے رفتار قفس

پوچھتا ہے کیا دل بلبل کا حال
دیکھ ظالم جسم افگار قفس

اشک کو ہے دام گیسو کی تلاش
طفل ہوتا ہے خریدار قفس

تا بہ کے ہوگا اسیر دام فکر
عرشؔ کر موقوف اشعار قفس

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse