ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق  (1866) 
by شاہ آثم

ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق
آفرینہا بر سبق خوانان عشق

زہرۂ دوزخ ہے آگے اس کے آب
الامان از آتش سوزان عشق

ہے رہا قید غم کونین سے
پائے تا سر قیدیٔ زندان عشق

تنگ رکھتا ہے دوا کے نام سے
مبتلائے درد بے درمان عشق

خون دل پیتا ہے اور ہے جانتا
نعمت عظمی اسے مہمان عشق

غور کر دیکھا تو ہفت اقلیم میں
حکمراں ہے بے گماں سلطان عشق

کشتیٔ گردوں سراپا ڈوب جائے
جوش میں آوے اگر طوفان عشق

بندہ کو مولا بناتا ہے مدام
کس قدر ہے یے عیاں احسان عشق

بھول جاوے زہد و تقویٰ زاہدا
گر کرے تو سیر کفرستان عشق

فیض سے آثمؔ شہ خادم کے ہے
سیر میں اپنی بہارستان عشق

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse