ہے غلط گر ترے دانتوں کو کہوں تارے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے غلط گر ترے دانتوں کو کہوں تارے ہیں
by خواجہ محمد وزیر

ہے غلط گر ترے دانتوں کو کہوں تارے ہیں
کہ دہن مصحف ناطق ہے یہ سیپارے ہیں

اپنی ہستی میں تو آثار فنا سارے ہیں
شام کو ذرے ہیں اور صبح کو ہم تارے ہیں

کیا ہی ہرجائی حسینان جہاں سارے ہیں
یہ وہ اختر ہیں کہ ثابت نہیں سیارے ہیں

ذائقہ ہونٹوں کا بدلے گا نہ مسی ملیے
ہوں گی یہ قند سیہ اب تو شکر پارے ہیں

بادشاہوں کی طرح پھرتے ہیں ڈنکے دیتے
خار پا چوب ہیں اور آبلے نقارے ہیں

چھپ چلے ہیں خط شب رنگ سے رخسار صبیح
دن ہے کم شام کے آثار عیاں سارے ہیں

ساغر چشم کے سو دینے پڑیں گے بوسے
شیشۂ دل کبھی توڑا تو یہ کفارے ہیں

خط پہ خط روز بہا کر اسے پہنچاتے ہیں
اشک کاہے کو ہیں یہ ڈاک کے ہرکارے ہیں

آب جاری کیا اعجاز سے اے بہر کرم
انگلیاں کاہے کو ہیں نور کے فوارے ہیں

مصحف رخ کو وہ دکھلائیں اگر تیسوں دن
نئی پھبتی مجھے سوجھی کہوں سیپارے ہیں

ہاتھ اگر چھونے سے جل جائے ید بیضا ہو
لعل لب اس بت کافر کے وہ انگارے ہیں

رونگٹے کب ہیں ان آئینوں میں ہیں پڑ گئے بال
ہاتھ زانو پہ کبھی یار نے دے مارے ہیں

پشت پر ہے جو سپر خم ہوئے ہو تیغ کی طرح
چار پھول اس کے تمہیں پھولوں کے پشتارے ہیں

روبرو رہتی ہے تصویر تصور شب و روز
اب تو بے منت خلق آپ کے نظارے ہیں

دیکھ کر تجھ کو حسیں کٹتے ہیں بھولے ہیں بناؤ
کنگھیاں کرتے نہیں سر پہ رواں آرے ہیں

دل پہ جو گزری خبر اشکوں نے دی آ کے وزیرؔ
لائق خلعت رومال یہ ہرکارے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse