ہے عکس آئینہ دل میں کسی بلقیس ثانی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے عکس آئینہ دل میں کسی بلقیس ثانی کا
by برجموہن دتاتریہ کیفی

ہے عکس آئینہ دل میں کسی بلقیس ثانی کا
تصور ہے مرا استاد بہزاد اور مانی کا

غنیمت سمجھو یہ مل بیٹھنا یاران جانی کا
بھروسا کیا ہے دنیا میں دو روزہ زندگانی کا

نزاکت ہو گئی ضرب المثل ان کی زمانے میں
بھلا ہو یا الوہی اس ہماری سخت جانی کا

ہے عکس اس چشم پر نم میں کسی آبی دوپٹے کا
بنایا ہے مکاں ہم نے عجب پانی میں پانی کا

غضب کا کاٹ کر کرتی ہیں ادائیں اس پری وش کی
ابھاروں پر ہے جوبن اور عالم ہے جوانی کا

امنگوں کی کسک بے چین کرتی ہے انہیں لیکن
نزاکت روک دیتی ہے ارادہ نوجوانی کا

شب فرقت جو ٹھنڈے ٹھنڈے ہو جائے وصال اپنا
گماں ہو موت پر اپنی حیات جاودانی کا

یہ دل کیوں بجھ گیا سوز فراق شعلہ رویاں میں
تماشا ہے کیا ہے آگ نے یاں کام پانی کا

خیال اک چشم میگوں کا سدا مسرور رکھتا ہے
یہاں کیا کام ہے ساقی شراب ارغوانی کا

یہی ہیں دیکھ لو وہ شاعر معجز بیاں کیفیؔ
زمانے میں ہے چرچا آج جن کی خوش بیانی کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse