ہے عشق تو پھر اثر بھی ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے عشق تو پھر اثر بھی ہوگا
by سید محمد عبد الغفور شہباز

ہے عشق تو پھر اثر بھی ہوگا
جتنا ہے ادھر ادھر بھی ہوگا

مانا یہ کہ دل ہے اس کا پتھر
پتھر میں نہاں شرر بھی ہوگا

ہنسنے دے اسے لحد پہ میری
اک دن وہی نوحہ گر بھی ہوگا

نالہ مرا گر کوئی شجر ہے
اک روز یہ بارور بھی ہوگا

ناداں نہ سمجھ جہان کو گھر
اس گھر سے کبھی سفر بھی ہوگا

مٹی کا ہی گھر نہ ہوگا برباد
مٹی ترے تن کا گھر بھی ہوگا

زلفوں سے جو اس کی چھائے گی رات
چہرے سے عیاں قمر بھی ہوگا

گالی سے نہ ڈر جو دیں وہ بوسہ
ہے نفع جہاں ضرر بھی ہوگا

رکھتا ہے جو پاؤں رکھ سمجھ کر
اس راہ میں نذر سر بھی ہوگا

اس بزم کی آرزو ہے بے کار
ہم سوں کا وہاں گزر بھی ہوگا

شہبازؔ میں عیب ہی نہیں کل
ایک آدھ کوئی ہنر بھی ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse