ہے دھیان جو اپنا کہیں اے ماہ جبیں اور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے دھیان جو اپنا کہیں اے ماہ جبیں اور
by میر حسن دہلوی

ہے دھیان جو اپنا کہیں اے ماہ جبیں اور
جانا ہے کہیں اور تو جاتا ہوں کہیں اور

جب تو ہی کرے دشمنی ہم سے تو غضب ہے
تیرے تو سوا اپنا کوئی دوست نہیں اور

میں حشر کو کیا روؤں کہ اٹھ جاتے ہی تیرے
برپا ہوئی اک مجھ پہ قیامت تو یہیں اور

وعدہ تو ترے آنے کا ہے سچ ہی ولیکن
بازو کے پھڑکنے سے ہوا دل کو یقیں اور

آخر تو کہاں کوچہ ترا اور کہاں ہم
کر لیویں یہاں بیٹھ کے اک آہ حزیں اور

تھا روئے زمیں تنگ زبس ہم نے نکالی
رہنے کے لیے شعر کے عالم میں زمیں اور

نام اپنا لکھاوے تو لکھا دل پہ تو میرے
اس نام کو بہتر نہیں اس سے تو نگیں اور

ابرو کی تو تھی چین مرے دل پہ غضب پر
مژگاں سے نمودار ہوئے خنجر کیں اور

نکلے تو اسی کوچہ سے یہ گم شدہ نکلے
ڈھونڈھے ہے حسنؔ دل کو تو پھر ڈھونڈ وہیں اور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse