ہے دنیا میں زباں میری اگر بند

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے دنیا میں زباں میری اگر بند
by بشیر الدین احمد دہلوی

ہے دنیا میں زباں میری اگر بند
مگر معنی کے مجھ پر کب ہیں در بند

جو سب نامہ کیا آتا ہے دیکھیں
لکھا نامہ دیا قاصد کو سر بند

خدا جانے ہے اس میں مصلحت کیا
کھلی ہے راہ لیکن ہے خبر بند

رہائی جیتے جی ممکن نہیں ہے
قفس ہے آہنی دربند پر بند

کہیں بھی اب نہیں میرا ٹھکانا
کہ اک اک گھر ہے بند ایک ایک در بند

نہ کیوں تکلیف ہو ارماں کو دل میں
کہاں جائے کدھر جائے ہے گھر بند

مجھے آتا نہیں کیا کام کرنا
مگر باب دعا بند اور اثر بند

کہیں بھولے سے کوئی آ تو جائے
ہم اپنے دل میں رکھیں گے نظر بند

دعا یہ ہے کہ یارب مطمئن ہوں
ہو الفت میں کسی صورت سے شر بند

وہ رازق رزق پہنچاتا ہے سب کو
کھلیں ستر اگر ہو ایک در بند

برادر قوت بازو ہے مانا
مگر فرزند ہوتا ہے جگر بند

مرا دل بھی طلسمی ہے خزانہ
کہ اس میں خیر بھی ہے اور شر بند

بشیرؔ اچھی زباں پائی ہے تو نے
تری درج دہن میں ہیں گہر بند

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse