ہے دل کو جو یاد آئی فلک پیر کسی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے دل کو جو یاد آئی فلک پیر کسی کی
by بہادر شاہ ظفر

ہے دل کو جو یاد آئی فلک پیر کسی کی
آنکھوں کے تلے پھرتی ہے تصویر کسی کی

گریہ بھی ہے نالہ بھی ہے اور آہ و فغاں بھی
پر دل میں ہوئی اس کے نہ تاثیر کسی کی

ہاتھ آئے ہے کیا خاک ترے خاک کف پا
جب تک کہ نہ قسمت میں ہو اکسیر کسی کی

یارو وہ ہے بگڑا ہوا باتیں نہ بناؤ
کچھ پیش نہیں جانے کی تقریر کسی کی

نازاں نہ ہو منعم کہ جہاں تیرا محل ہے
ہووے گی یہاں پہلے بھی تعمیر کسی کی

میری گرہ دل نہ کھلی ہے نہ کھلے گی
جب تک نہ کھلے زلف گرہ گیر کسی کی

آتا بھی اگر ہے تو وہ پھر جائے ہے الٹا
جس وقت الٹ جائے ہے تقدیر کسی کی

اس ابرو و مژگاں سے ظفرؔ تیز زیادہ
خنجر نہ کسی کا ہے نہ شمشیر کسی کی

جو دل سے ادھر جائے نظر دل ہو گرفتار
مجرم ہو کوئی اور ہو تقصیر کسی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse