ہے دل ناکام عاشق میں تمہاری یاد بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے دل ناکام عاشق میں تمہاری یاد بھی
by اصغر گونڈوی

ہے دل ناکام عاشق میں تمہاری یاد بھی
یہ بھی کیا گھر ہے کہ ہے برباد بھی آباد بھی

دل کے مٹنے کا مجھے کچھ اور ایسا غم نہیں
ہاں مگر اتنا کہ ہے اس میں تمہاری یاد بھی

کس کو یہ سمجھایئے نیرنگ کار عاشقی
تھم گئے اشک مسلسل رک گئی فریاد بھی

سینے میں درد محبت راز بن کر رہ گیا
اب وہ حالت ہے کہ کر سکتے نہیں فریاد بھی

پھاڑ ڈالوں گا گریباں پھوڑ لوں گا اپنا سر
ہے مرے آفت کدے میں قیس بھی فرہاد بھی

کچھ تو اصغرؔ مجھ میں ہے قائم ہے جس سے زندگی
جان بھی کہتے ہیں اس کو اور ان کی یاد بھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse