ہے دل میں غبار اس کے گھر اپنا نہ کریں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے دل میں غبار اس کے گھر اپنا نہ کریں گے
by مومن خان مومن

ہے دل میں غبار اس کے گھر اپنا نہ کریں گے
ہم خاک میں ملنے کی تمنا نہ کریں گے

کیونکر یہ کہیں منت اعدا نہ کریں گے
کیا کیا نہ کیا عشق میں کیا کیا نہ کریں گے

ہنس ہنس کے وہ مجھ سے ہی مرے قتل کی باتیں
اس طرح سے کرتے ہیں کہ گویا نہ کریں گے

کیا نامے میں لکھوں دل وابستہ کا احوال
معلوم ہے پہلے ہی کہ وہ وا نہ کریں گے

غیروں سے شکر لب سخن تلخ بھی تیرا
ہر چند ہلاہل ہو گوارا نہ کریں گے

بیمار اجل چارہ کو گر حضرت عیسیٰ
اچھا بھی کریں گے تو کچھ اچھا نہ کریں گے

جھنجھلاتے ہو کیا دیجیے اک بوسہ دہن کا
ہو جائیں گے لب بند تو غوغا نہ کریں گے

دیوار کے گر پڑتے ہی اٹھنے لگے طوفاں
اب بیٹھ کے کونے میں بھی رویا نہ کریں گے

گر سامنے اس کے بھی گرے اشک تو دل سے
کیوں روز جزا خون کا دعوا نہ کریں گے

کس وقت کیا مردمک چشم کا شکوہ
اے پردہ نشیں ہم تجھے رسوا نہ کریں گے

ناصح کف افسوس نہ مل چل تجھے کیا کام
پامال کریں گے وہ مجھے یا نہ کریں گے

اس کو میں ٹھہرنے نہ دیا جوش قلق نے
اغیار سے ہم شکوۂ بے جا نہ کریں گے

گر ذکر وفا سے یہی غصہ ہے تو اب سے
گو قتل کا وعدہ ہو تقاضا نہ کریں گے

مومنؔ وہ غزل کہتے ہیں اب جس سے یہ مضمون
کھل جائے کہ ترک در بت خانہ کریں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse