ہے دل سوزاں میں طور اس کی تجلی گاہ کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے دل سوزاں میں طور اس کی تجلی گاہ کا
by بخش ناسخ

ہے دل سوزاں میں طور اس کی تجلی گاہ کا
روئے آتش ناک ہر شعلہ ہے میری آہ کا

وصل کیا ہم خاکساروں کو ہو اس دل خواہ کا
خاک میں آلودہ ہونا کب ہے ممکن ماہ کا

نور افشاں جب سے ہے دل میں خیال اس ماہ کا
طور کا شعلہ دھواں ہے میری شمع آہ کا

قامت موزوں نظر آئے مجھے جائے الف
تھا شروع عاشقی دن میری بسم اللہ کا

سمجھے میکش دیکھ کر ابرو تری بالائے چشم
مے کدے سے مرتبہ اعلیٰ ہے بیت اللہ کا

آمد خط میں تو ہونے دے نگاہوں کا گزر
دیکھ لے بچنے نہیں پاتا ہے سبزہ راہ کا

خلق نے قرآن دیکھا جب ہوا ماہ رجب
ہم نے دیکھا مصحف رخسار اپنے ماہ کا

آتے ہی اس طفل کے روشن سیہ خانہ ہوا
شمع ساں جلوہ ہے اس کے قامت کوتاہ کا

یار کا ناسخؔ پھٹا ہے پیرہن تو عیب کیا
ہے کتاں کو چاک کرنا کام نور ماہ کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse