Jump to content

ہے جس میں قفل خانۂ خمار توڑیئے

From Wikisource
ہے جس میں قفل خانۂ خمار توڑیئے
by انشاء اللہ خان انشا
294613ہے جس میں قفل خانۂ خمار توڑیئےانشاء اللہ خان انشا

ہے جس میں قفل خانۂ خمار توڑیئے
یعنی در بہشت کو یکبار توڑیئے

کیوں قید خم میں دختر رز ہی پڑی رہے
یہ مہر ریسمان‌ سروکار توڑیئے

شاگرد امیر‌ حمزۂ صاحب قراں کے ہیں
کیوں کر بھلا نہ قلعۂ اشرار توڑیئے

کیجے لقائے باختر بے بقا کو قید
نجتک کے سر پہ گرز گراں بار توڑیئے

چوٹی پکڑ کے نرگس جادو کی کھینچیے
کلے کو اس کے ماریے للکار توڑیئے

رستم سے چھین لیجئے دیو‌ سفید کو
اور اس کی دہ مروڑ کے تلوار توڑیئے

سد سکندری بھی جو چڑھ جائے دھیان تو
ووہیں طفیل حیدر کرار توڑیئے

آ جاویں ہفت خوان طلسمات سامنے
تو خیر سے انہیں بھی بہ تکرار توڑیئے

حصن‌ زمردین عدو کوہ قاف پر
ہووے تو اس کو بھیج کے عیار توڑیئے

زنبیل ہے عمرو کی دل فکر خیز یہ
اس کو کسی طرح سے نہ زنہار توڑیئے

ہے عزم جزم یہ کہ زبردستی آج تو
بند قبا ہے موسم گلزار توڑیئے

یا چھیڑنے کو ابر کے اک جھٹکا مار کر
شلوار بند برق شرربار توڑیئے

جی چاہتا ہے لے کے بلائیں تمہاری آج
پوریں ان انگلیوں کو سب اے یار توڑیئے

انشاؔ دکھا کے اور بھی اک جلوۂ غزل
بند نقاب شاہد اسرار توڑیئے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.