ہے تصور مجھے ہر دم تری یکتائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے تصور مجھے ہر دم تری یکتائی کا
by بخش ناسخ

ہے تصور مجھے ہر دم تری یکتائی کا
مشغلہ آٹھ پہر ہے یہی تنہائی کا

عشق میں رشک ہمیشہ سے چلا آتا ہے
دیکھو قابیل نے کیا حال کیا بھائی کا

جام سائل کی طرح ہیں مری آنکھیں در در
جب سے عاشق کسی کافر شیدائی کا

عشق کامل جو ہوا ننگ کہاں عار کہاں
دھیان بدمست کو رہتا نہیں رسوائی کا

ہجر میں گردش بیہودہ جو ہے اے ساقی
جام کیا کاسۂ سر ہے کسی سودائی کا

میری آنکھوں نے تجھے دیکھ کے وہ کچھ دیکھا
کہ زبان مژہ پر شکوہ ہے بینائی کا

قدم اغیار کا رکھنا ہو گوارا کیوں کر
تیرے در پر ہے مجھے شغل جبیں سائی کا

مجھ سے رہتا ہے رمیدہ وہ غزال شہری
صاف سیکھا ہے چلن آہوئے صحرائی کا

ہجر میں چٹکے جو غنچے ہوئی آواز تفنگ
صحن گلزار ہے میدان صف آرائی کا

جس نے دیکھا تجھے اے یار ہوا دیوانہ
ہے تماشا ترے ہر ایک تماشائی کا

سبزہ رنگوں کا یہ ہے خاک مقرر ناسخؔ
سبز رنگ اس لیے آتا ہے نظر کائی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse