ہے بے لب و زباں بھی غل تیرے نام کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے بے لب و زباں بھی غل تیرے نام کا
by اسماعیل میرٹھی

ہے بے لب و زباں بھی غل تیرے نام کا
محرم نہیں ہے گوش مگر اس پیام کا

خوش ہے ملامت اہل خرابات کے لئے
اس سلسلے میں نام نہیں ننگ و نام کا

نخوت ہے جس کے کاسۂ سر میں بھری ہوئی
کب مستحق ہے محفل رنداں میں جام کا

جاگیر درد پر ہمیں سرکار عشق نے
تحریر کر دیا ہے وثیقہ دوام کا

وادیٔ عشق میں نہ ملا کوئی ہم سفر
سنتے تھے نام خضر علیہ السلام کا

آسودگی نہ ڈھونڈ کہ جاتا ہے کارواں
لے مستعار برق سے وقفہ قیام کا

کھولا ہے مجھ پہ سر حقیقت مجاز نے
یہ پختگی صلہ ہے خیالات خام کا

کھاتا نہیں فریب تمنائے دو جہاں
خوگر نہیں ہے توسن ہمت لگام کا

مت رکھ طمع سے چشم تمتع کہ ہے یہاں
دانہ ہر ایک مردمک دیدہ دام کا

پہونچا دیا حدود دو عالم سے بھی پرے
مطرب نے راگ چھیڑ دیا کس مقام کا

ظلمت میں کیا تمیز سفید و سیاہ کی
فرقت میں کچھ حساب نہیں صبح و شام کا

جس کی نظر ہے صنعت ابرونگار پر
ہے وہ قتیل تیغ نہ کشتہ نیام کا

کھانے کو اے حریص غم عشق کم نہیں
یہ ہو تو کچھ بھی فکر نہ کر قرض و وام کا

میں بے قرار منزل مقصود بے نشاں
رستہ کی انتہا نہ ٹھکانا مقام کا

گر دیکھیے تو خاطر ناشاد شاد ہے
سچ پوچھئے تو ہے دل ناکام کام کا

اٹھے تری نقاب تو اٹھ جائے ایک بار
سب تفرقہ یہ روز و شب و صبح و شام کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse