ہے بے خود وصل میں دل ہجر میں مضطر سوا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے بے خود وصل میں دل ہجر میں مضطر سوا ہوگا
by رشید لکھنوی

ہے بے خود وصل میں دل ہجر میں مضطر سوا ہوگا
خوشی جس گھر کی ایسی ہے وہاں کا رنج کیا ہوگا

ابھی تو یار سے کہنے کی دل میں باتیں ہیں لاکھوں
نہ کچھ یاد آئے گا اس وقت جس دم سامنا ہوگا

مرے مدفن کی مٹی کا وہ کھچوائیں گے عطر اکثر
اگر بوئے وفا کا ان کے دل میں کچھ مزا ہوگا

وہ گیسو بڑھتے جاتے ہیں بلائیں ہوتی ہیں نازل
قدم تک آ گئے جب حشر عالم میں بپا ہوگا

غضب کرتے ہو میرے دل کو ابرو سے چھڑاتے ہو
بھلا سمجھو تو کیوں کر گوشت ناخن سے جدا ہوگا

عدم میں میرا کیا کیا دم رکے گا ایک مدت تک
نئی بستی نئی پوشاک ہوگی گھر نیا ہوگا

اتارا خون کے دریا سے ہوگا سرفروشوں کا
بنے گی تیغ کشتی اور قاتل ناخدا ہوگا

بیاں تھا روز اول یہ مرے دل کی اداسی کا
بڑی اس گھر کی آبادی یہ ہے ماتم سرا ہوگا

خبر لے باغباں ہے کس غضب کا حبس گلشن میں
ہوا ہے بند اسیران قفس کا دم رکا ہوگا

مرے سینے سے دل کے ٹوٹنے کی کیوں صدا آئی
مگر یاں ہاتھ سے ساقی کے شیشہ گر پڑا ہوگا

ستم گر آئے گا اکثر خبر لینے کو زنداں میں
ہمیں وہ بیڑیاں پہنا کے پابند وفا ہوگا

رقیبوں کی امیدوں کو جگہ دیتے ہیں دل میں ہم
کہ ان میں سے کوئی آخر ہمارا مدعا ہوگا

نہیں ہے جس میں تیرا عشق وہ دل ہے تباہی میں
وہ کشتی ڈوب جائے گی نہ جس میں ناخدا ہوگا

رشیدؔ الفت سے جب واقف نہ تھے اکثر یہ کہتے تھے
نہ دل سے ہم جدا ہوں گے نہ ہم سے دل جدا ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse