ہے بے اثر ایسی ہی جو اپنی کشش دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہے بے اثر ایسی ہی جو اپنی کشش دل
by قائم چاندپوری

ہے بے اثر ایسی ہی جو اپنی کشش دل
جی لے ہی کے چھوڑے گی یہ اک دن خلش دل

تھا مو مجھے آمد میں کوئی اس کی کہ ناگاہ
لے جائے نہ گھر سے کہیں باہر تپش دل

زہراب و ہلاہل سے جو کچھ کام نہ نکلا
دے کر کے میں کی خون جگر پرورش دل

کس طرح کوئی گزرے تری رہ سے کہ پیارے
ہر گام پہ اس کوچے میں ہے چپقلش دل

کیا نقش کہ خاطر سے ہوئے مجھ کو مگر ایک
ہر نقش ترا آٹھ پہر منتقش دل

ہاتھوں سے دل و دیدہ کے آیا ہوں نپٹ تنگ
آنکھوں کو روؤں یا میں کروں سرزنش دل

دیجو نہ اسے اس بت بیباک کو قائمؔ
زنہار کہ نازک ہے نہایت تپش دل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse